گو شۂ احباب (مراسلہ نگار سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

٭اوج ؔاکبر پوری۔رہتاس(بہار)
جنوری۔مارچ کا شمارہ موصول ہواجو محترم سید آلِ رسول قدسی مدظلہ کے نام ہے ۔آں جناب نے مجھ ناچیز پر خصوصی توجہ فرمائی اس کے لیے بے حد ممنون ہوںکہ ایسی نابغۂ روزگار ہستی کے نام کا تحفہ ارسال فرمایاجن کے جدّ اعلیٰ حضرت دیوان شاہ دریا ؒ ہیں۔جو تقریباً ۵ ؍ سوسال قبل بغداد معلیٰ سے نقل مکانی کر کے ظفر آباد جونپور تشریف فرما ہوئے ۔پھر اشارۂ غیبی پا کر کٹک ہوتے ہوئے بھدرک کی سرزمین کو رونق بخشی ااور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔اتنی عظیم و مایۂ ناز ہستی سے قدسی صاحب کی حقیقی نسبت ہے۔قدسی صاحب کے مفصل حالات اور تبحر علمی سے میں پہلی بار روشناس ہوا۔ تقریباً دودرجن کتابوں کے مصنف ہیں۔مسلک اعلیٰ حضرت سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے اور انھیں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔
سید آصف دسنوی سرپرست ادبی محاذ کٹک کے پیغام اور سید نفیس دسنوی کی تحریر نیز افتخار احمد صدیقی صاحب کی سراپا سازی نظر نواز ہوئی ۔محترم نفیس دسنوی نے اپنی تحریر میںقدسی صاحب کا بے لاگ اور جامع تعارف ہی نہیں پیش کیا بلکہ بتایا ہے کہ قدسی صاحب کا خاندانی پس منظر خانقاہی ہے اور پیغام اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی ؒکوفروغ دینا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے۔فی الحال قدسی صاحب نیویارک میں ۱۵؍ سال سے مقیم ہیں ۔خوش بیانی اور زور خطابت میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔ لیکن نعت پاک ان کا خاص موضوع ہے ۔جناب پروفیسر کرامت علی کرامتؔ جو ان کی شاعری کے استاد بھی ہیں قدسی صاحب کے فن اور شخصیت کے تحت اشارہ کیا ہے کہ’’شاعری کو اپنے مسلک کی تبلیغ واشاعت کے لیے استعمال کرنا راقم الحروف کی رائے میں کسی بھی طرح سے قابل تحسین نہیں ہے‘‘میں بھی اس سے متفق ہوں ‘قدسی صاحب نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم میں بھی فراغت پائی ہے، جو ایک مثال ہے۔
قابل احترام پروفیسر طلحہ رضوی برقؔ کے علاوہ تقریباً ۵۰،۶۰ ناقدین زبان و ادب کے مضامین اور تبصرے کو شامل کر کے مدیر اعلیٰ صاحب نے اس رسالہ میں چار چاند لگا دئے ہیں۔خاص کر جناب رحمت اللہ صدیقی کا مضمون ’’قدسی کی نظموں کا انتخاب میرا مرکز مطالعہ رہا۔اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ قدسی صاحب نعت کے ساتھ نظم میںبھی اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ ابھی قدسی صاحب ماشاء اللہ جواں سال ہیں ‘اللہ موصوف کو لمبی عمر عطا کرے اور مسلکی اعتبار سے جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ بھی دیار غیرمیں رہ کر اسے شرف قبولیت حاصل ہو۔
٭اسلم حنیف(گننور ٰو پی) 
سہہ ماہی ادبی محاذ ‘کا تازہ شمارہ جنوری/مارچ ۲۱۰۹ء جو سید اولاد رسول قدسی ؔ سے مختص ہے دو یوم قبل ہی موصول ہوا ہے۔
دیگر خاص نمبروں کی طرح یہ نمبر بھی سید اولاد رسول قدسی کے فکر و فن کی تفہیم کے لیے دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔ محترم کرامت علی کرامتؔ‘عبد المتین جامی‘خاور نقیب‘ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری اور سعید رحمانی جیسے معتبر قلم کاروں کے مضامین ہی سید اولاد رسول قدسی ؔ کی شعری شخصیت کی عظمت وانفرادیت پر مہر تصدیق ثبت کر دئے ہیں ۔موصوف کے کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت کئی اصناف پر قدرت رکھتے ہیں ۔نعت اور غزل سے انھیں خصوصی لگاؤ ہے۔اور جہاں تک غزل کا تعلق ہے وہ جدید یت کے اس دھارے سے قریب ہیںجس میں اظہار کے لیے علامتی انداز فکر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ علامتی اظہار میں بصیرت و فکرکا عنصر گہرا ہوجاتا ہے اور یہی عنصر شاعری کو معنوی تنوع کا حامل بنا دیتا ہے۔
سید اولاد رسول قدسی نے عام روش سے ہٹ کر غزل کو جس رجحان سے پیوستہ کیا ہے اس سے ان کی غزل میں خاصی وسعت اور گہرائی پیدا ہوگئی ہے۔لیکن قدسیؔ کہیں کہیں اپنے انداز ِاظہار میں اس قدر جدّت و علامت پسند ہو جاتے ہیں کہ ان کے یہاں ابہام و تعقید ِ معنوی کا عیب پیدا ہوجاتا ہے‘کاش وہ اس عیب کا شکار نہ ہوتے ان کے یہ اشعار زندگی کے معنویت کا جو احساس پیدا کرتے ہیں وہ خوشگوار بھی ہے اور رجائیت آمیز بھی۔
تیرہ و تار لیلیِ شب سے۔پھوٹتی ہے سحر تازہ۔یہ راز کھل کے بھی ہے ہر بشر سے پوشیدہ
بے رُخی کی نظر سے ملا کر نظر
ہوگئی میری طرزِ ادا باغ باغ 
خوش نصیبوں کو فقط ملتی ہے
یاسمینِ ہجر کی نکہت ہے خاص
٭شار ق عدیل(ایٹہ):ادبی محاذ کا تازہ ترین شمارہ دستیاب ہوگیا ہے ۔تخلیقات کی اشاعت کے لئے آپ کا شکر گزار ہوں،مگر شارق عدیل کے دو بیٹوں کوشارق شاد کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔
وہ تو غنیمت ہوا کہ پتہ شارق عدیل کا ہی دیا ہے۔جس نے فضول کی کوفت سے بچا لیا،رسالے کو صحت کے اعتبار سے کچھ کمزور سا پایا۔ مدیر سید نفیس 
دسنوی صاحب سے فون پر گفتگو کی تو معلوم ہوا مالی بحران کی بنا پر کچھ صفحات کم کر دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ رسالے کی اشاعت کا مسئلہ آسانی سے حل ہو جائے۔آپ نے بہت ہی محنت و لگن کے ساتھ اس کی پرورش کی ہے۔پوری اردو دنیا آپ کے نام اور کام سے واقف ہے ۔ایسی صورت میں تو رسالے کو مالی بحران کا شکار ہو نا ہی نہیں چاہئے۔
قاضی مشتاق احمد اور عبد المتین جامی ؔکی تحریریں اپنے موضوعات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہیں ،لیکن ان دنوں اردو والے ہر ضروری بات کو نظر انداز کرنے کی مشق میں لگے ہوئے ہیں۔اگر یہ رویہ جاری رہا تو کہنے سننے کے لئے کچھ باقی بچے گا ہی نہیں۔ڈاکٹر قریشی احمد کا مضمون’’گلزار کی شاعری‘‘اچھا ہے لیکن یہ شعر:
گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو۔آندھیوں!تم نے درختوں کو گرا دیا ہوگا
گلزار صاحب کا نہیںکیف بھوپالی(مرحوم) کا تخلیق کردہ ہے۔ڈاکٹر مسعود جعفری کا مختصر مضمون ’’اردو میں آزادی و حریّت‘‘…بہت ہی اچھا ہے اور اردو زبان کی شعری توانائیوں کا بہترین انداز میں تعارف پیش کرتا ہے۔
خاکسار نے اپنی تازہ شعری کتاب’’کرب زاد‘‘شائع ہوتے ہی روانہ کردی تھی۔تبصرے کی امید بھی پوری تھی لیکن مذکورہ شمارے میں تبصرے نہ پاکر مایوسی ہوئی،اور وہ بھی صرف اس لیے کہ آپ کی محبتیں ہمیشہ میسر رہی ہیں ،سہیل اختر کے انتقال کی خبر نے دل دکھادیا،اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین۔بقیہ مشمولات بھی مناسب ہیں،ایک تازہ ترین غیر مطبوعہ غزل حاضر ہے۔
(نوٹ۔آپ کے صاحبزادوں کے نام کا مجھے تو علم نہیں۔آپ نے جو نام دیا تھا اسی نام سے غزل شایع ہوئی ہے۔اگرمجھے الہام کی کیفیت حاصل ہوتی تو اس کا امکان تھا کہ آپ کی بجائے آپ کے صاحبزادوں کے نام لکھوں)۔
رسالے کی اشاعت میں تاخیرکا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے خریداروں میں سے نصف تعدادکے کرم فرماؤںنے تجدید نہیں کرائی ہے۔امید ہے ہماری دشواری کے پیشِ نظر وہ اس جانب توجہ فرمائیں گے۔’’کرب زار‘‘ پرتبصرہ اسی شمارے میں ملاحظہ فرمائیں(سعید رحمانی)
٭قاضی مشتاق احمد(پونے)  ادبی محاذ کا تازہ شمارہ(اپریل تاجون ۱۹ء)ملا۔علیم صبا نویدی کا شکرگزارہوں کہ انھوں نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا۔یہ بڑی اچھی بات ہے کہ whats app اورtwitterکے اس زمانے میںباذوق قارئین نے  قلم وکاغذ سے تعلق برقرار رکھا ہے۔قارئین کی آراء مشعلِ راہ ہوتی ہے۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ کیسے موضوعات پسند کیے جاتے ہیں۔عبدالمتین جامیؔ نے بھی مکتوب نگاری کے فن کو دوبارہ زندہ کرنے کی حمایت کی ہے۔طویل مکتوب نہ سہی پوسٹ کارڈہی سہی۔سید نفیس دسنوی کا یہ شعر پسند آیا:
اب تو دولت ہی سے طے ہوتے ہیں رشتے سارے
کیا ضروری ہے کوئی اچھا گھرانہ ڈھونڈیں
٭علیم صبا نویدی(چنئی):’’ادبی محاذ‘‘اپریل تا جون ۲۰۱۹ ؁ء کا شمارہ ملا۔شکریہ۔زیرِ نظر شمارے کے ’’محاذِ اول‘‘میں بعنوان’’کیسے کیسے لوگ بن بیٹھے استاد‘‘طنزیات کی پھلجھڑیاں بکھیرتے ہویے پڑھنے کو ملا۔اس اداریئے کا آغاز حضرت علیؓکے قول سے منسوب کرتے ہویے کہ’’ جس شخص نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا استاد ہے‘‘اس زریں سطر نہج البلاغہ (حضرت علیؓ)کی تصنیف کے مدِ نظر مرکوزِ نظر علامہ اقبال کا پیش کردہ ’’سر‘‘ کے خطاب کا اس شرط پر قبول کرنا کہ پہلے استاد محمد حسین آزادؔ کو شمس العلماء کاخطاب دیا جایے بر حق ہے۔آپ کا اداریہ اس شرط کی بنیاد پر اپنا احاطہ کرتا ہے۔ اس مضمون سے ہٹتے ہویے اچانک موضوعِ سخن گھٹالہ معاملہ جو تعلیمی شعبہ سے منسلک ہے اس پر آپ قلم فرسائی کرتے ہویے ان سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ونام نہاد مدرسین سے سرزد بے ضابطگیوں اور دھاندلیوں سے پردہ اٹھاتے ہیںجس سے بے شک آج کے تقریباً سارے ہائی اسکول اور کالجس انھیں دھاندلیوں کا شکار ہیں۔اس تلخ حقیقت سے بھی دو قدم آگے آپ نے ایک اور سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ سنجے سنگھ سینئر سکنڈری اسکول کے احاطے میں شراب کی فیکٹریاں چلائی جارہی ہیں۔ظاہر ہے ان حالات میں بھلا غریب گھروں کے بچوں کو تعلیمی اعتبار سے پھلنا پھولنا تودرکنار ‘جرائم و مجرمانہ کاروبار کی طرف راغب ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔بقول آپ کے یہ سب لوگ’’یا شیخ اپنا اپنا دیکھ‘‘والی نسل کے وارث ہیں۔اب ایسے جرائم زدہ ماحول میں اگر بچے تربیت پاکر جوان ہوتے ہیں تو کیوں نہ اکبر الہ آبادی کے اس شعر کی سند کے مستحق  ہوپائیں کہ: 
جوانی کی دعا لڑکوں کو ناحق لوگ دیتے ہیں
یہی لڑکے مٹاتے ہیں جوانی کو جواں ہوکر

Post a Comment

0 Comments