٭عبد المتین جامی(اردو بازار۔پدما پور ضلع کٹک):
ادبی محاذ جنوری تا مارچ ۲۰۱۷ء کا شمارہ ہم دست ہوا۔سید شکیل دسنوی مرحوم کے گوشے کے بعد ڈاکٹر فریاد آزر کا گوشہ تمام تر رعنائیوں کے ساتھ فی الوقت میرے سامنے ہے۔ قاضی مشتاق احمد صاحب نے اردو میلوں کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے قابل غور ہے۔ پہلے ہی اڑیسہ میں اردو بولنے اور پڑھنے والوں کی تعدادبہت ہی کم ہے لیکن ہندوستان کے دیگر علاقوں میں جہاں اردو والوں کی تعداد بہت ہے جان کر خوشی ہوئی کہ وہ اردو کتاب خرید کر پڑھنے میں قابل لحاظ حد تک بہت آگے ہیں۔ طالب علموں میں اچھی کتابیں خرید کر مطالعہ کا شوق بڑھا ہوا ہے۔ سید نفیس دسنوی (مدیر ادبی محاذ) کا اداریہ بھی ڈاکٹر فریاد آزر صاحب کے تعارف کے سلسلے میں اہمیت کا حامل ہے۔ گوشۂ احباب کے باب میں قارئین کے خطوط بھی دلچسپ ہوتے جا رہے ہیں۔مختلف موضوع پر ان کی بحث کارگر ہوتی جا رہی ہے۔
فریاد آزر کے سوانحی منظر کے مطالعہ سے موصوف کی ادبی شخصیت واضح طور پر سامنے ّجاتی ہے۔ علاوہ ازیں جناب حقانی القاسمی ‘پروفیسر ابن کنول‘ ڈاکٹر کوثر مظہری‘ عمران عظیم ‘پروفیسر مولا بخش‘ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی‘ڈاکٹر ممتاز الحق اور سعید رحمانی کے مضامین میں کافی عرق ریزی کی گئی ہے۔ فریاد آزر جیسے نابغۂ روزگار شاعر کے گوشے کی ترتیب دینے میں ادارے کو بہت زیادہ دقت کا سامنا کرنا پڑا ہوگااس میں کوئی دو رائے نہیں۔تاہم فریاد آزر فہمی کے لئے یہ گوشہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔اتنا خوبصورت گوشہ نکالنے کے لئے ادارہ قابل مبارکباد ہے۔
علیم صبا نویدی کا مضمون ‘مرحوم ظہیر غازی پوری کی رباعی پر کافی روشنی ڈالتی ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر چاند نظامی کا مضمون ’’ظہیر غازی پوری جنھیں زمانہ برسوں یاد کرے گا‘‘قابل مطالعہ ہے۔ناوک حمزہ پوری کی رباعیاں’’نیاسال ۱۴۳۸ھ کی آمد ‘‘پر ملت اسلامیہ کے کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی حد تک کار آمد ثابت ہوگی۔ لیکن ویران جنگلوں میں موتی بکھیرنے سے حاصل کیا ہوگا۔باقی مضامین بھی قابل مطالعہ ہیں۔
لیکن غزلوں کو شائع کرنے میں ترتیب کا لحاظ ضروری ہے ایسا میں نے محسوس کیا ہے۔ بیشتر سینئر شعراء پیچھے رہ گئے ہیں جن کو سامنے رہنا تھا۔ بہر کیف منیر سیفی کے قطعات تاریخ بنام فرحت قادری ‘بیکل اتساہی اور سعید رضا وگوہر عظیم آبادی بے حد پسند آئے۔ موصوف قطعات تاریخ لکھنے میں مہارت رکھتے ہیںجان کر خوشی ہوئی۔مبارک باد۔موصوف کا ایک خط اسی شمارے میں شائع ہوا ہے جس میں عبد المتین جامی کے ’’مونس سخن‘‘ پر ناز پرتاپ گڑھی کے تاثرات کی بجاہے مہدی پرتاپ گڑھی کے تاثرات چھپ گیا ہے۔ قاری اسے درست کر لیں۔ افسانہ کا حصہ بھی ٹھیک ہے۔ مختلف زبانوں کے افسانوں کا اردو میںتراجم بھی شائع کرنا چاہئے۔بطور خاص اڑیسہ کی نمائندگی ہونی چاہئے۔ کتابوں پر تبصرے نپے تلے ہیں۔ بہر حال موجودہ شمارہ صوری اور معنوی ہر دو اعتبار سے بے حد حسین اور دل پذیر ہے۔ خدا آپ کی عمر میں برکت دے اور آپ اسی طرح اردو کی خدمت کرتے رہیں۔آمین
جمیل فاطمی(بیگوسرائے،بہار):
عرض یہ ہے کہ سہ ماہی ادبی محاذ کا تازہ شمارہ (اکتوبر تا دسمبر۲۰۱۶ء)تاخیر سے مل گیا تھا۔ لیکن فوراً مجھے دو مہینہ کے لئے گاؤں سے باہر جانا پڑگیا اسی لیے خط لکھنے میں تاخیر ہو گئی۔اس بار کے شمارے میں آپ نے جناب شکیل دسنوی مرحوم کا گوشہ شائع کیا ہے جو بہت عمدہ ہے پسند آیا ۔لیکن اُن پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے ۔ایسے ہمہ جہت شاعروادیب دنیا میں کم ہی پیداہوتے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت جگہ دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔آمین
٭منیر سیفی(پٹنہ):
ادبی محاذ جنوری۔مارچ ۲۰۱۷ء میں فریاد آزر کا گوشہ پڑھا۔مضامین اچھے ہیں۔موصوف کا ایک شعرمیرے ذہن میں محفوظ ہے:
ہواؤں میں شر پھیلا رہا ہے۔پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
مشمولات کے اعتبار سے زیرِ نظر شمارہ معیاری کہا جائے گا۔سید نفیس دسنوی صاحب ۲۴؍ یا ۲۶؍جنوری کو پٹنہ آنے والے تھے؟٭٭٭
0 Comments