نام کتاب۔قلزم نور (مجموعہ نعت و مناقب)

نام کتاب۔قلزم نور (مجموعہ نعت و مناقب)

شاعر۔ سید محمد نور الحسن نورؔ نوابی عزیزی    مبصرسعیدؔ رحمانی

اردو میں صنف نعت عربی اور فارسی سے ہوتی ہوئی آئی ہے۔یوں تو ابتدا سے اس میں شعرا طبع آزمائی کرتے آرہے ہیں اور اپنے اپنے مجموعوں کی ابتدا بھی نعت پاک سے کرتے رہے ہیں مگر ابتدا میں نعتیہ مجموعوں کی اشاعت کافی سست رہی ہے جب کہ عصر حاضر میں کثرت سے نعتیہ مجموعے شائع ہونے لگے ہیں جو بڑی خوش آئند بات ہے۔
نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی لیکن وہی شاعر اس میدان میں سر خرو گزر سکتا ہے جو دینی معلومات رکھتا ہواور شرعی حدود سے بھی واقف ہو ۔خصوصاً شریعت پر گہری نظر اور قرآنی معلومات کے بغیر نعت کہنا از بس دشوار ہے کیونکہ ذرا سی چوک اسے تحت الثریٰ پہنچا سکتی ہے۔ اس میدان میں بہت سنبھل کر قدم رکھنا پڑتا ہے ورنہ بقول عرفی: 
عرفیؔ مشتاب ایں رہِ نعت است نہ صحرا۔آہستہ کہ رہ بردم تیغِ است قدم مرا
مختصر یہ کہ نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔نعتیہ شاعری کے لئے کوئی فارم متعین نہیں ۔نعت مسدس‘ مخمس‘ ترجیع بند یا مثنوی کی ہئیت میں بھی کہی جاتی ہے مگر بیشتر شعرا نعت کہنے کے لئے غزل کی ہئیت کو ترجیح دیتے ہیں اور آج کل عموماًنعتیں غزلیہ فارم میں ہی کہی جاتی ہیں ۔ساتھ ہی جدید لب و لہجہ میں نعتیں کہی جانے لگی ہیں اور نئے نئے تجربے بھی ہو رہے ہیں۔ اس طرح نعتیہ شاعری کا دامن وسیع ہونے لگا ہے۔
زیر نظر مجموعہ میں سبھی نعوت ِپاک اور مناقب غزلیہ فارم میں ہیں ۔ان نعتوں میں جہاں غزل کی چاشنی ہے وہیں عقیدت مندی کے والہانہ جذبات کی سرشاری بھی پائی جاتی ہے۔یہاں یہ بتادوں کہ نعت کا موضوع نبی اکرمؐ کی ذاتِ اقدس سے مخصوص ہے۔ اس میں مدح و توصیف کے علاوہ آپؐ کی حیاتِ طیبہ ‘عادات واطوار‘ معمولات ِزندگی‘تعلیمات‘معجزات اور غزوات کے علاوہ انسانی ہمدردی ‘مہمان نوازی‘ خوش خلقی‘در گزر جیسے خصائل کو بڑی عقیدت مندی سے جزوِ شاعری بنایا جاتا ہے۔
مذکورہ نکات کی روشنی میںجب زیر نظر مجموعہ کے مشمولات پر نظر ڈالتے ہیں تو تسلیم کرنا پڑتا کہ حضرت نورؔ نے ا ن سبھی پہلوؤں کا احاطہ نہایت خوش اسلوبی سے کیا ہے اور وفور جذبات میں کہیں بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے ہیں۔ چونکہ حضرت نورؔ کی پرورش و پرداخت ایک علمی اور روحانی خانوادے میں ہوئی ہے اس لئے ابتدا ہی سے تقدیسی شاعری ان کی توجہ کا مرکز بنی رہی اور نعت و مناقب میں اپنی تخلیقیت افروزیوں کے ایسے گل بوٹے کھلائے جن کی مہک آج پوری اردو دنیا کو معطر کررہی ہے۔ نعت گوئی سے گہری وابستگی اور اس کے صلے میں بلندیٔ درجات کا اعتراف آپ نے اس طرح کیاہے:
نبی کی نعت نگاری نے کر دیا ممتاز٭کسی نظر میں نہ تھی کوئی حیثیت میری
پھر یہ بھی کہ جب تک اللہ توفیق نہ دے اس پائے کا نعت کہنا ممکن نہیں۔ اس لئے کہتے ہیں:
     نہ ہو گر نطق میں شامل کرم خلاق اکبر کا ٭ادا اک حرف ہو سکتا نہیں نعتِ پیمبر کا       
      حضرت نورؔ کی نعتیہ شاعری کے تعلق سے علامہ خالد رومیؔ قادری(راؤلپنڈی) فرماتے ہیں:’’سید نور الحسن نورؔ کہنہ مشق و زیرک نگاہ اہل فکر وفن میں سے ہیں۔ صنف نعت اور مناقب اہل بیت ِ رسول سے اپنی طبع سلیمہ و حیات صحیحہ کے باعث خاصی رغبت رکھتے ہیں اور بحمد اللہ اس میدان کے شہسوارِ چالاک بھی ہیں‘‘۔
یوں تو اس مجموعے میں ان گنت اشعار ایسے ہیں جن کی تاثر پذیری سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس مختصر تبصرے میں سب کا حوالہ ممکن نہیں۔ صرف دو تین شعر پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔
چٹک اُٹھیں شاخِ دل کی کلیاں‘مہک اُٹھے فکر کے دریچے
مرے خیالوں کی انجمن میں حضور جب آئے مسکراتے 
سنا جو یہ کہ گدائے رسول ہوں میں۔تو حادثات نے پوچھی ہے خیریت میری
گفتگو ہے کس قدر شیریں شہِ کونین کی۔لوگ پڑھ لیتے ہیں کلمہ بات سن کر دیکھئے
آخر میں مناقب اور رباعیات ہیںجن سے ثابت ہوتا ہے کہ متعدد اصناف ِسخن پر آپ کو دستر س حاصل ہے۔مجموعی طور پر’’قلزم نور‘‘ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے حرف حرف سے عشقِ رسول اور بزرگانِ دین سے محبت و عقیدت کی خوشبو پھوٹتی محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کے مرتب حضرت یار وارثی نے اس گراں قدر صحیفے کو منظرِ عام پر لا کر ایک مستحسن قدم اُٹھایا ہے جس کے لئے وہ بہر طور مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ اُمید ہے کہ مجموعے کی پذیرائی عاشقِ رسول خوش دلی سے کریں گے۔اس کی قیمت ہے ۲۵۰؍ روپے اور ملنے کا پتہ: آستانۂ عالیہ نوابیہ ‘قاضی پور شریف ‘ضلع فتح پور (ہسوہ) یوپی۔   

Post a Comment

0 Comments