Ziya Jafar > Ke Tasuraat

٭ضیا جعفر(بنگلور)

  اکتوبر دسمبر کا شمارہ پڑھا اور پڑھتا رہا۔قاضی مشتاق صاحب کا طنزیہ’’کیا یہی راج دھرم ہے‘‘کافی فکر انگیز ہے اور کئی واقعات کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے۔گوشۂ سید شکیل دسنوی‘‘ میں قاضی رؤف انجم‘ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی‘منیر سیفی‘شارق عدیل‘ابرار نغمی‘سید نفیس دسنوی‘ مدہوش بلگرامی‘نصراللہ نصرؔ‘احسن امام احسن‘محب الرحمان وفاؔ‘اور  ارشد قمر صاحبان جیسی قد آور شخصیتوں نے موصوف کے  فکر وفن کا عمدہ جائزہ پیش کیا ہے۔علیم صبا نویدی‘منیر سیفی اور سعید رحمانی کا پیش کردہ نذرانۂ عقیدت پسند آیا۔اس میں شکیل صاحب کی غیر مطبوعہ تخلیقات بھی شامل کرکے آپ نے انھیں زندگی بخش دی ہے۔مجموعی طور پر یہ گوشہ دستاویزی بن گیا ہے۔صبیحہ جہاں نے اپنے مضمون’’رؤف خوشتر کی کائناتِ طنز ومزاح‘‘کے ذریعہ موصوف کی طرزِ تحریر پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔میرے افسانہ’’اور منظر بدل گیا۔۔۔۔‘‘ کو قارئین نے کافی سراہا ہے۔میں ان سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔پروفیسر مناظر عاشق صاحب کے افسانہ’’لہو لہان وقت‘‘ میں میری کہانی نظر 
آئی۔ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ گزر چکا ہے۔یہ افسانہ پڑھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں۔حسن ساہو‘ایس۔کیو عالم طلعت اور سید فرید دسنوی کی مختصر مختصر کہانیاں طنز سے بھر پور ہیں۔غزل کا حصہ اس بار بھی بھاری اور سبھی غزلیں اور مضامین متاثر کرتے ہیں۔قارئین کے خطوط بھی پسند آئے۔

Post a Comment

0 Comments