نام کتاب۔تبسم زیر لب

نام کتاب۔تبسم زیر لب

(طنز و مزاح)
مصنف۔پروفیسر ضمیر الدین 

  مبصر۔سعیدؔ رحمانی

مزاح اور طنز لازم و ملزوم ہیں ۔مزاح میں طنز کی نشتریت ایسی ہوتی ہے کہ لوگ ہنسی ہنسی میں اس کے مافی الضمیر تک پہنچ جاتے ہیں۔مگر مزاح نگاری کے لئے فنی شعور کی پختگی لازمی ہے اور اگر یہ نہ ہوتوپھر یہ ابتذال اورپھکڑپن کے زمرے میں داخل ہو جائے گی۔طنز و مزاح کے نمونے ہمارے شعرواب میں سوداؔکے زمانے سے پائے جاتے ہیں۔جنھوں نے اپنی ہجویہ شاعری کے ذریعہ اپنے معاصرین اور اپنے دور کی نا ہمواریوں پر نشتر چلائے تھے۔پھر’’اودھ پنج ‘‘کی اشاعت سے اس فن کو                                                  ترقی ملی۔ مزاح گوئی میں ضمیر جعفری‘مجید لاہوری‘اکبر الہ آبادی سے ہوتے ہوئے رضا نقوی واہی‘ بوگس حیدر آبادی‘نٹ کھٹ عظیم آبادی اور ان گنت شعرا نے نام پیدا کیا۔ اسی طرح نثر میں غالبؔ کے خطوط سے لے کر رتن ناتھ سرشار‘عظیم بیگ چغتائی‘ مشتاق احمد یوسفی ‘یوسف ناظم‘رؤف خوشتر‘جیسے مزاح نگاروں کے ذریعہ اس فن کو تقویت حاصل ہوئی۔بہر حال طنز و ظرافت کے فن کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ آج کے پُر آشوب دور میں ہونٹو ں پر مسکان کی کلیاں کھلادینا کارِ ثواب ہے۔اور یہی کام پروفیسر ضمیر الدین بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔
بنیادی طور پر موصوف انگریزی کے آدمی ہیں۔انگریزی میں ان کی تین کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں‘مگر اردو کا بھی رچا بسا ذوق پایا ہے اور مزاح نگاری ان کی اولین پسند ہے۔ظرافت پر ان کاا ولین مجموعہ’’چلتے پھرتے‘‘ ۲۰۰۴ء؁ میں مدھیہ پردیش اردو اکاڈمی نے شائع کیا تھا۔ اب تقریبا ً ۱۴؍ سال کے وقفہ  سے یہ دوسرا مجموعہ’’تبسم زیر لب‘‘ منظرِ عام پر آیا ہے جس میں کل ۵۰؍ مضامین ہیں۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان مضامین کا مطالعہ کرتے وقت لبوں پر بے ساختہ تبسم کے پھول کھل اُٹھتے ہیں اور ساتھ ہی قاری کی رسائی آدمی کے کردار کی پستی اور معاشرہ کی نا ہمواریوں تک ہو جاتی ہے۔
اس کا پہلا مضمون سابق صدر عبد الکلام سے انٹریو ہے‘جس میں ایک خاتون جرنلسٹ ان سے ہم کلام ہوتی ہیں‘اور ان کے کنوارے پنے‘بالوں کے اسٹائل ‘بچوں سے دلچسپی اور ان کے پسندیدہ نیلے رنگ کے مطابق سوال کرتی ہیں جن کے جواب یقینا ’’تبسم زیر لب‘‘کے محرک بنتے ہیں۔مثلاً ہیر اسٹائل کے تعلق سے صدر محترم کا جواب ہے :میں دلیپ کمار صاحب کا بہت فین یعنی عاشق رہا ہوں۔کوشش تو بہت کی کہ ان کی ہیراسٹائل کو اپنالوں لیکن مدراسیوں کو پنجابیوں کی ہیراسٹائل پسند نہیں آئی۔دلیپ صاحب کی وہ ایک آوارہ لٹ (لفظ زلف سے گریز کرتے ہوئے) جس سے وہ بہت رومانٹک لگتے تھے میری نہ ہوسکی۔ان کی لٹ یک طرفہ تھی۔ہم نے اپنی دو طرفہ کر لی۔ہمارا ہیراسٹائل آپ کو پسند نہیں؟یوں تو ان کے سبھی مضامین ایسے ہیں کہ انھوں نے ہنسی ہنسی میں معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ان مضامین میں جانوروں سے انٹریو کے علاوہ طلاق تک’تلّاک‘تلّاک‘ جب جعفر بُش نے اذان دی‘مذکر مونث کی زد میں‘ ستونِ شاہین‘غیبت کمیٹی ‘برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔بطور خاص لائقِ مطالعہ ہیں۔
پروفیسر ضمیر الدین کی تحریروں میں ان کی مزاج کی شگفتگی کبھی مزاح کے پھول کھلا تی ہے اور کبھی طنز کے نشتر چلاتی ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ضمیر الدین صاحب حقیقی معنوں میں ایک کامیاب مزاح نگار ہیں۔ آج کے اس پُر آشوب دور میں ایسی ہی تخلیقات کی اشد ضرورت ہے۔ امید ہے اس  مجموعے کا خوشدلی سے استقبال کیا جائے گا۔اس کی قیمت ہے تین سو روپے اور مصنف کا پتہ :۔پروفیسر ضمیرالدین  ۔۴۔پروفیسر کالونی ،بھوپا ل  462002(ایم پی)

Post a Comment

0 Comments