Sayyed Aslam Sad ul Aamiri

سید اسلم صدالآمری(چنئی)   


جولائی تاستمبر کا ادبی محاذگوشۂ کبیر وارثی کی صورت میں ہمدست ہوا۔ محاذ اول میں قاضی مشتاق احمد نے افغانی صابر حسین کی علمی وادبی موبائیل لائبریری سے روشناس کراتے ہوئے ’’کاش ہمارے یہاں کوئی صابر حسین ہوتا‘‘جو آہ بھری ہے وہ بے حد دل آگیں ہے۔محاذ ثانی میں سمیع الحق شاکر نے ’’گوشۂ کبیر وارثی‘‘میں اپنا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے۔اس گوشہ میں کبیر وارثی کے شعری مجموعہ ’’شہر محبت‘‘پر سعید رحمانی‘رفیق شاہین‘شارق عدیل ‘صابر ادیب اور عبدالمتین جامی جیسے معتبراہل قلم نے اپنے رشحات قلم سے جو تبصرے قلم بند کیے ہیں وہ شاعر شہر محبت کبیر وارثی کے لئے ایک معتبر دستاویز و سند سے کم نہیں۔حمد ونعت کے کالم میں احقر کی نعت کو جائے اشاعت نصیب ہوئی جس کے لئے میں مشکور ہوں۔ استاذِ سخن قمر سنبھلی کی نعت کیف آور اور وجد آور ہے ۔غلام مرتضیٰ راہیؔ کی مناجات کے آخر کے دوشعر ماورائے فہم ہیں۔البتہ ان کی غزل کا یہ شعر
بوجھ سے جھکتی ہوئی شاخ کو غم سے لے کر پھول بھی مری طبیعت پہ گراں بار ہوا
بہت پسند آیا۔رؤف خیر نے اپنی غزل کے مقطع میں اپنے نام اور تخلص سے استفادہ کرتے ہوئے ۔
وہ ضد میں آپ ہی اپنے خلاف جاتا ہے۔رؤف خیرؔ کو ہر اعتبار شر سے ملا 
خود کو جو متعارف کرایا ہے‘ قابل داد و تحسین ہے۔حیرت ؔ فرخ آبادی کی غزل کے مطلع میںردیف کمپوزنگ کی غلطی سے ’’پہلے ‘‘کی جگہ ’’اپنا‘‘شائع ہو گیا ہے۔اشوک مزاج کی غزل‘ غزل کے مزاج سے میل نہیں کھاتی جس کو کمپوزنگ کی نذر تو نہیں کہا جا سکتا۔ قدیر احمد قدیرؔ کی غزل بحر خفیف میں اچھی لگی۔تبسمؔ فرحانہ نے بھی چھوٹی بحر میں اچھی کوشش کی ہے۔وہیں کہنہ مشق شاعر اختر کاظمی صاحب کی بھی چھوٹی بحر میں کہی گئی غزل قابل احترام ہے۔آصف دسنوی نے بھی چھوٹی بحر میں بڑا کمال کیا ہے۔ظفر ؔاقبال ظفر کا مقطع پسند آیا۔
تھی سر سے کھیلنی جو عادت اُسے ظفرؔ اس کی انا پہ وار تو میں نے کیا نہیں
لئیق خان کوثر ‘ؔ ‘شاہد سیا نوی‘ڈاکٹر رام داس اور ڈاکٹر وصی مکرانی واجدی کی غزلیں بھی قابل دادو تحسین ہیں۔اس کے علاوہ علیم صباؔ نویدی نے اپنے ’’نثری نظم‘‘ میں‘ گوپی چند نارنگ کے مضمون (مطبوعہ ’’اوراق ‘‘،اکتوبر‘نومبر۱۹۸۵ء؁)بعنوان’’نثری نظم کی شناخت‘‘کے حوالے سے وزیر آغا اور شمس الرحمٰن فاروقی جیسی مقتدر شخصیتوں پر فوقیت حاصل کرنے کی ایک کار گر کوشش ضرور کی ہے ‘لیکن ایم احد ؔجیسے کئی اردو قارئین کے لئے قابل قبول بھی ہو ورنہ یہ سعیٔ بے سود ہے۔علیم صباؔ نویدی جو بقول ناوک ؔ حمزہ پوری تملناڈ کے بابائے اردو اور بقول رؤف خیر ؔ خواجۂ ادب نواز ہیں نے گوپی چند نارنگ کے مضمون ’’نثری نظم کی شناخت‘‘کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے اور بڑی عرق ریزی کے ساتھ نثری آہنگ کی تفہیم میں صوتیات سے تعلق رکھنے والی اصطلاحات:
(۱)طولQuanitity(۲)بلStrees(۳)سر لہرIntonationکو بہت اچھے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے جس کے بعد یہ بات فوراً داخلِ دماغ ہو جاتی ہے کہ کسی بھی نثری تحریر یا عبارت یا جملوں کی ترکیب کو زبان سے گھسیٹ کر‘ طول دے کر‘کہیں کہیں درمیان میں بل دے کر‘بل کر لحن انداز یا راگ میں الاپا جا سکتا ہے اور اس کو نثری نظم کا نام دیا جا سکتا ہے مثلاً ‘یہ فن بعض واعظوں اور مقرروں میں دیکھا گیا ہے جو اپنی تقریر یا واعظ کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ سننے والوں کے دل و دماغ کو دوہا‘گیت یا نظم کی طرح محسوس ہونے لگتا ہے ۔لفظ ’’نظم‘‘ہی اپنی جگہ صنفی اعتبار سے وزن اور بحر کے دائرے میں رہنے کی دلالت کرتا ہے۔ رہا اردو شاعری ‘اس میں پہلے بھی تجربے ہوئے اور اب بھی ہوتے آرہے ہیں ‘آئندہ بھی اس کے امکانات ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان تجربات کو آزاد نظم‘آزاد غزل‘ دوہاغزل یا غزل نما جیسی پذیرائی حاصل ہو اور اردو کے معتبر قاری انھیں تسلیم اور قبول کرلیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے نثری نظم کو نثری نظم کی بجائے نثری شاعری یا غزل نما کی طرح ’’نظم نثری‘‘،’’نثری نما نظم‘‘کا نام دے دیا جائے تو بہتر ہو گا۔خط طویل ہو گیا ہے ‘آمدم بر سرِ مطلب ایک تازہ غزل ارسال ِخدمت ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments