Qariyeen Ke Tasuraat > قارئین کے تاثرات

٭منیر سیفی(پٹنہ)

ادبی محاذ برائے اکتوبر دسمبر باصرہ نواز ہوا۔قاضی مشتاق احمد کا ’’محاذِ اول‘‘
کو دوٹوک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔میں نے محسوس کیا کہ حضرت سید شکیل دسنوی (مرحوم) کے شایانِ شان گوشہ نہیں نکل سکا ہے۔سید نفیس دسنوی نے ’’محاذِ ثانی‘‘ میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے عبدالمتین جامیؔ کے’’مونسِ سخن‘‘ پر مہدی پرتابگڑھی کے تاثرات پسند آئے۔حمید عکسی کے مطلع میں لفظ’’سنگلاخ‘‘اپنے تلفظ کے ساتھ ادا نہیں ہورہا ہے۔

٭عبدالحئی پیام انصاری(گورکھپور)

  ادبی محاذاکتوبر دسمبر کا شمارہ شکیل دسنوی(مرحوم) کی خوبصورت مسکراتی ہوئی تصویر کے ساتھ دستیاب ہوا۔ان کے ادبی شب وروز کی جھلکیاں تصویروں کی زبانی دیکھنے کو ملیں۔اس کے علاوہ فیضانِ ادب کی ۱۵؍سالہ ادبی خدمات بھی تصویروں کی زبانی معلوم ہوئیں۔گوشۂ شکیل دسنوی میں شامل مشمولات کے ذریعہ موصوف کی ادبی شخصیت اور ان کے کارناموں سے متعارف ہوا۔اتنا خوبصورت گوشہ شائع کرنے پر دلی مبارکباد قبول فرمائیں۔یہی گوشہ ہی شمارے کا حاصل کہلانے کا مستحق ہے۔

٭علیم الدین علیم(کولکاتا) 

 ادبی محاذ برائے اکتوبرتا دسمبر موصول ہوا۔ماشا اللہ بہت جاذب نظر اور صورت وسیرت سے پرکشش ہے۔سید شکیل دسنوی(مرحوم) کا گوشہ دیکھ کر مسرت ہوئی۔لیکن ان کی ادبی خدمات اورہمہ جہت شخصیت کے اعتبار سے پورا رسالہ ان کے نام شائع ہوتا تو بے حد مسرت ہوتی۔اس لیے کہ ان کو کئی اصناف پر دسترس حاصل تھی۔سپرنٹنڈنٹ انجینیئر کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوتے ہوئے بھی ان کی وابستگی نہ صرف ادبی اداروں سے رہی بلکہ صحافت سے بھی جڑے رہے اور تا حیات اردو زبان وادب کی خدمت اور اپنی شاعری کو سنوارنے نکھارنے میں منہمک رہے۔وہ اچھے شاعر کے علاوہ اچھے تنقید نگار اور مضمون نگار بھی تھے۔غزلوں کے علاوہ مختلف اصنافِ سخن پر انھوں نے کامیاب طبع آزمائی کی ہے اور خوب کی ہے۔ان کی شاعری میں ایک خاص رنگ ہے جو موصوف کو غالباً وراثت میں ملی ہے۔
ان کی غزلوں میں جذبۂ احساس کی ترجمانی ‘داخلی کیفیات‘خارجی زندگی کے مسائل‘عصر حاضر کا کرب اور محبت کا پیغام بھی ہے۔ان کی درجنوں تصنیفات منظرِ عام پر آکر دانشورانِ ادب سے شرفِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔انھیں گرنقدر ادبی خدمات کے اعتراف میں مختلف اکاڈمیوں اور ادبی تنظیموں نے انعامات سے بھی نوازا ہے۔میں تو کہوں گا کہ ان کی شعری ونثری تخلیقات نے اردو ادب کے ذخیرے میں جو بیش بہا اضافہ کیا ہے اس کی بدولت مرحوم اردو دنیا میں ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔بقول راقم الحروف  ؎  
موت آتی ہے چپکے سے جب سامنے۔جانا پڑتا ہے اس کو چمن چھوڑ کر
تذکرہ اس کا ہوتا ہے پھر جا بہ جا۔جو بھی جاتا ہے حسنِ سخن چھوڑ کر
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments