منفرد لہجے کا شاعر ۔غلام مرتضیٰ راہی ؔMunfarid Lehje Ka Shayer Gulam Murtaza Raahi

 خالد علوی 

۵۰۲؍محمد زئی، شاجہان پور (یوپی)

منفرد لہجے کا شاعر ۔غلام مرتضیٰ راہی ؔ

ترقی پسند تحریک کی تدفین کے بعد ایک نئی تحریک’’جدیدیت‘‘نے جنم لیا ۔اس تحریک کی زندگی گو کہ مختصر رہی مگر اس نے جو کارنامہ انجام دیا وہ بلا شبہ لائقِ تحسین ہے۔ اس تحریک کا عظیم کارنامہ یہی ہے کہ اس نے شعراء و ادبا ء کی ایک طرح سےBrainwashingکردی اور یہ تحریک، تحریک نہ رہ کر ایک ادبی رجحان بن گئی۔ انداز و افکار کو جدید پرایہ ٔ اظہار دیے جانے کے لئے شعراء و ادباء کے ساتھ ساتھ ذہین اور سنجیدہ قارئین کے حلقے میں اس کا پُرزور استقبال کیا گیا۔ تحریکیں ہمیشہ مرجاتی ہیں ،رجحان زندہ رہا کرتے ہیں ۔اس تحریک نے ترقی پسند تحریک کے تلازمات،لفظیات اور پُرشور اسلوب سے شاعری کو نجات دلانے کا قابلِ قدر معرکہ سر کر لیا اور اندھیرے سے اُجالے کا فرق سمجھا کر فکر و نظر کے لئے نئے دیار آباد کئے۔
فکرونظر کے نئے دیار آباد کرنے والوں میں یوں تو بہت سے نام تھے مگر غلام مرتضیٰ راہی ؔ کا نام ان دیاروں کے بنیاد گزاروں کی حیثیت سے جانا پہچاناجاتا ہے ۔’’گل سر سبد‘‘راہیؔ کی آٹھویں شعری دستاویز ہے۔ راہیؔ جدید مکتبۂ فکر کا بڑا اہم اور ممتاز و معتبر نام ہے جس کی خوبی و اختصاص یہ ہے کہ اس نے جدید لب و لہجے کو شروع سے ہی اختیار کیا جو آج اس کی پائیدار و مستحکم شناخت بن چکا ہے۔ 
زندگی اپنی تمام تر حشر سامانیوں ،کامرانیوں، ناکامیوں، نا مرادیوں، مسرتوں،حسرتوں اور اُمید و یاس کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ زندگی منزلوں کے تعین کا نام نہیں ،اگر پہلے سے منزلوں کا تعین کردیا جائے تو زندگی غیر متحرک و مجہول ہو جایا کرتی ہے۔ قدم تھک جاتے ہیں ،آگے بڑھنے کا حوصلہ دم توڑ دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح شاعری جو انسانی ذہن کی تخلیق ہوا کرتی ہے اس کا سفر بھی جامد ہو جاتا ہے۔ ایک جگہ پر ٹھہرجاتا ہے۔غیر یقینی ہی شاعری کے قدموں کو طاقت  وتوانائی دینے کا اور اسے متحرک رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اس کے بر عکس یقینی اور تعین شدہ حالات ِ زندگی‘ شاعری میں یکسانیت و بے رنگی پیدا کردیتے ہیں۔ غیر یقینی ہی شاعری میں تلاش و جستجو کا جذبہ پیدا کرتی ہے ۔اس غیر یقینی نے راہیؔ کی شخصیت اور شاعری کی تعمیر و تشکیل میں نہایت اہم کردار اداکیا ہے ۔راہیؔ کی شاعری میں زندگی کی سچائیاں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ وہ بے خطر آتشِ نمرود میں کود جانے کے احمقانہ عمل کے مرتکب نہیں ہوتے ،عقل کو محوِ تماشائے لبِ بام نہیں رہنے دیتے بلکہ عقل و خرد کو اپنا 

رہبر بنا کر منزلوں کا سُراغ تلاش کرتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز، زندگی کی برق رفتاری اُنھیں یہ موقع فراہم نہیں کرتی کہ وہ اپنے شب و روز کا حساب کرتے:
 بے تحاشا جئے ہم لوگ یا ہمیں ہوش نہیں
    وقت آرام سے گزرا کہ پریشانی سے   
زندگی نے راہی کو سنبھلنے ہی نہیں دیا کہ وہ آرام اور پریشانی کے درمیان خطِ فاصل کھینچ پاتے مگر ان تمام تصادمات کے باوجودراہیؔ کے سامنے منزلیں گرد کی مانند اُڑتی چلی گئیں۔ انہوں نے ہر منزل کو آخری منزل تصور نہیں کیا بلکہ اپنی رفتار کو نئی سمت و توانائی عطا کی۔  
انسان کے لئے کچھ پابندیاں اورحصاربھی لازم ہوتے ہیں۔سہل الحصول نہ ہونا بھی ان میں سے ایک ہے۔ اگر کم یابی، کم آمیزی کا حصار اپنے گرد  کھینچا نہ جائے تو اس کے نتائج اس طرح رونما ہوتے ہیں   ؎
بات بڑھتی گئی آگے مری نادانی سیْ۔کتنا ارزاں ہوا میں اپنی فراوانی سے
لیکن راہیؔ نے تب بھی حوصلہ نہیں ہارا اور ایک نئے عزم اورنئی ہمت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔جاں گسل حالات میں انسان کے ذہن میں طرح طرح کے خیال آتے رہتے ہیں۔راہیؔ بھی اسی دنیا اور اسی سماج میں رہتے ہیں، ان کے پائے ثبات میں لغزش کا احساس جاگا مگر راہیؔ کے عزم و حوصلے کے آگے یہ احساس کمزور پڑ گیا اوریہ شعر دامنِ قرطاس پر رقم ہو گیا۔   ؎
اک تلخ حقیقت سے انکار نہ تھا ممکن۔سو بار مرے آگے راہِ فرار آئی 
وقت کے سانچے میں ڈھل جانا انسان کی فطرت ہوا کرتی ہے جس سے دامن کش ہوجانا امرِ محال ہوتا ہے۔زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کو بہت کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔مزاج بدل جاتا ہے،طرزِ حیات میں تبدیلی رونما ہو جاتی ہے،انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں،مگر راہیؔ وہ راسخ العقیدہ اور جاگتا ذہن رکھنے والا شاعر ہے جو ان تمام تغیرات کے پرے دیکھنے کا فن جانتا ہے اور عصرِ حاضر کی پُر شور اور نمائش سے پُر زندگی کی تفسیر یوں بیان کرتا ہے۔  ؎
شور و شغف کا مطلب کیا جانو۔جب درپردہ سنّاٹے بول رہے ہیں
دوڑائی ذرا آگے نظر میں نے تو دیکھا۔نظّارہ کوئی اور ہی منظر سے پرے ہے
  راہیؔ نے اپنی شاعری کو پیچیدہ اور نا قابل فہم علامتوں سے بوجھل
بنانے کا گناہ کبھی نہیں کیا بلکہ جن علامتوں کو اپنی شعری کائنات میں جگہ دی ہے وہ زندہ ہیں اور زندگی سے بہت قریب ہیں۔ راہیؔ نے بے حد سادہ الفاظ میں جہانِ معنی سمودیا ہے جس کے باعث ان کی شاعری تہہ داری اور اثر آفرینی سے ہم کنار ہو گئی۔جس سے پہلو تہی کرنا اہل نقد و نظر کے لئے ممکن نہیں ہے۔  بقول شمس الرحمٰن فاروقی صاحب’’یہ دنیا آسانی سے نبھ جانے والی جگہ نہیںہے لیکن راہیؔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے ایسا اسلوب استعمال کرتے ہیں جو بظاہر سادہ لیکن بباطن معنی سے بھرپور ہے‘‘۔  ؎
ہمارے ہاتھ کی کاریگری نہیں لیکن۔ہمارے نام کے پتھر عمارتوں میں ہیں
رکھنا بیساکھی کا یوں کام آیا۔اس کے بل پر میں لبِ بام آیا
جب اس نے دروازہ مجھ پر بند کیا ۔مجھ پر اس کے محفل آداب کھلے
ملا وہ شب میں تو اکثر سحر بھی کردی مگر۔ کبھی اندھیرے کا میں فائدہ اٹھا نہ سکا 
رہا میں نقطۂ پرکار کی طرح تنہا۔ہزار گرد مرے اک وسیع حلقہ تھا
مفلسی میں شباب کا آنا۔جیسے کانٹوں میں پھول کھل جائے
دل نے تمنا کی تھی جس کی برسوں تک۔ایسے زخم کو اچھا کر کے بیٹھ گئے 
تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے اندر اندر ۔بھید قطرہ بھی چھپائے ہے سمندر کی طرح
پیوند اب اسی کا لگائے ہوئے ہیں سب۔کام آیا تار تار ہمارے لباس کا
رہ گیا تشنۂ تعمیر ،صنم خانہ مرا۔کبھی آزر،کبھی تیشہ،کبھی پتھر نہ ملا
سب ایک موڑ تک آئے مرے تعاقب میں۔پھر اس کے بعد سمجھنے لگے سراب مجھے
مندرجہ بالا اشعار اپنی الگ شناخت کی قسم کھا رہے ہیں۔ راہیؔ کی شاعری کی یہ بڑی خوبی ہے کہ انہوں نے خود کو کبھی دہرایا نہیں۔ان کے کلام میں بسیار نویسی(Repeatation)کا عیب نظرنہیں آتا ۔
’’گل سر سبد ‘‘کے شاعر کو عرفانِ ذات کے ساتھ احساس کی سفاکیوں کا بھی ادراک ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس زمانے میں دولت ِ احساس سفاک ہونے کے ساتھ ساتھ نایاب بھی ہے اور اگر یہ گنجِ گراں مایہ کسی کے ہاتھ لگ بھی جائے تو دل کے زخموں میں اضافہ یقینی ہے اور یہ ادراک اسے یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ  ؎
احساس کی لو گھٹا لی میں نے۔میری ہی طرف لپک رہی تھی
راہیؔ صاحب زندگی کے سفر میںبہت محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔دل و دماغ کے علاوہ بھی کوئی تیسری قوت انسان کے پاس ہے جو انہیں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے سمجھوتہ کرنے نہیں دیتی اور انہیں کہنا پڑتا ہے   ؎
مفاہمت نہ تھی دل و دماغ میں۔قرار پر قرار پر ٹوٹتا رہا 
نہ جانے قید میں ہوں یا حفاظت میں کسی کے
کھنچی ہے ہر طرف اک چار دیوار ی سی کوئی
آج کی دنیا خود غرضی اور مفاد پرستوں کی دنیا ہے۔ راہیؔ دنیا کی اس روش کو بھی بہت گہرائی سے محسوس کرتے ہیں اور اس کااظہار کچھ اس انداز میں ہوتا ہے    ؎
تاکنے والا اک اکیلا میں۔باغ کا ایک اک ثمر سب کا
مثال ِ سنگ ہوں میں اس کی بے رخی کے سبب
سراپا آئینہ اس کی توجہات سے تھا 
سچے اور بیدار مغز فن کار کا زمانے میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات کو شدت سے محسوس کرنا ایک فطری عمل ہے۔ سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے جو روح فرسا اثرات ہوتے ہیں ان کے نقوش کا فن کار کے ذہن پر مرتسم ہونا بھی ایک حقیقت ِواقعی ہے۔راہی ؔبھی ان حالات کے جور وستم سے متاثر ہو تے ہیں اور اس کا دردمندانہ اظہار اس طرح کرتے ہیں   ؎
کسی کو غم نہیں اس کا کہ ساری دنیا میں۔ہمیشہ کے لئے امن و امان ختم ہوا 
آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کاخیال ۔اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں
آگ لگانے والے اتنا جانتے ہیں۔دب جاتی کر کے سب خاکسترآگ
دریا،جھیلیں ،جھرنے تو سب امرت ہیں۔امرت میں ہم وش کیوں گھول رہے ہیں
کرتا نہیں ہے کیوں وہ حقیقت مری بیاں۔اوروں کے قصے کر رہے مشہور کس لئے
اِدھر اُدھر جو دکانیں تھیں پِس گئی راہیؔ۔جلوس راہ سے بے اختیار نکلا ہے
راہیؔ کے یہاں فکر ونظر کا جو معیار ہے اسے منفرد کہنا غلط نہ ہوگا ۔ایک طویل مشقِ سخن سے گزر کر راہیؔ کو سلیقہ ٔ عرض ہنر کی دولتِ بیدار حاصل ہوئی ہے۔ ان کی شاعری چراغوں میں خونِ جگر جلانے کی ہنروری کی شاہد ہے۔ راہیؔ کی غزلیں سنجیدہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ،وہیں دوسری طرف صاحبانِ دل کے لئے خُنکئی شبنم کا پیغام بھی لاتی ہیں۔مثلاً
وہی آنکھیں وہی آنسو ان میں۔وہی بہتا ہوا کاجل اب تک
وہی گستاخ ہواؤں کا چلن۔وہی اُڑتا ہوا آنچل اب تک
آنسو کا اپنے دیکھنا رخسار پر اثر۔شبنم سے گل کو اور نکھر جانا چاہئے
ہوئے ختم فرصت کے اوقات جب بھی۔ملاقات ہونے لگی رہ گزر میں 
اس کے آکاش کو تکتے رہے پانی کے لئے۔اپنے پاتال میں ہم نے کبھی جھانکا بھی نہیں
بیچ میں آگیا اَنا کا سوال
بڑھ کے ملنے سے ہم رہے محروم
راہیؔاس عہد کے ا ن شاعروں میں ہیں جنھیں’’باقیات الصالحات‘ کے زمرے میں رکھا جانا چاہئے۔غلام مرتضیٰ راہی نے ؔ بلاشبہہ ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔ نئے انداز و ادا کے شعرا کی جو نئی نسل تیار ہوئی ہے وہ کہیں نہ کہیں راہیؔ کی فکر اور ان کے اظہار کی مرہونِ منت ہے۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے لیکن میں یہ دعویٰ ضرور کرسکتا ہوں کہ’’گل سرسبد‘‘کا مطالعہ کرتے ہوئے وافر تعداد میں ایسے اشعار ضرور ملیں گے
گے جو حساس دل و دماغ کو سوچنے پر مجبور کر دیں گے ۔مجھے قوی امید ہے کہ ادبی حلقوںمیں ’’گل سر سبد‘‘کی خاطر خواہ پذیرائی ہو گی۔ ہونا بھی چاہئے کہ راہیؔ نے اپنے شعری سرمائے سے عطر کشید کر کے ’’گل سرسبد‘‘کی صورت میں پیش کیا ہے۔
        آخر میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کی مندر جہ ذیل رائے بھی ملاحظہ فرمالیں:
’’لوگ ابھی غلام مرتضیٰ راہیؔ کے کلام کے العباد اور اس کے اعماق تک نہیں پہنچ سکے ہیں‘‘۔موصوف کی اس رائے سے غلام مرتضیٰ راہیؔ کی شاعری پر تنقید و تحقیق کرنے والوں کو ترغیب ملے گی۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments