Kafeel Anwar ٭کفیل انور(آرہ بھوجپور)

٭کفیل انور(آرہ بھوجپور)

منیر سیفی صاحب کے توسط سے ادبی محاذ جنوری تا مارچ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔محاذِ اول اور محاذِ ثانی قوم کے لیے تازیانے ہیں۔مقبول منظر کے یہ مصرعے نظرِ ثانی کے محتاج ہیں:
۱۔بندھ گئی اور ہی کے سر دیکھو۲۔خاک میں فتنے کے شرر دیکھو
لفظ’ بندھ‘ سے مصرع ناموزوں ہورہاہے۔میں سمجھتا ہوں ہندی کے ماسواعربی وفارسی الفاظ کا ’یے‘گرانا روا نہیں ہے۔مہدی پرتاپگڑھی کا شعر ہے:
کرنہ کبھی ہاتھ اٹھانے کی حماقت۔اس شہر میں مانگو گے تو ٹکڑا نہ ملے گا
یہاں ’ہاتھ پسارنا‘ہاتھ دراز کرنا ‘ہاتھ پھیلانا کا محل تھا۔ہاتھ اٹھانا بمعنی دست درازی یا اللہ سے التجا کرنا کے معنی میں آتا ہے۔میر تقی میرؔ کا مصرع دیکھئے:
کرنا کسو کے آگے دستِ طمع دراز
سلیم انصاری کے ’مطالعہ کا سفر‘پر ڈاکٹر اسرار الحق سبیلی کی تحریر بھی خوب ہے۔مطالعہ نیک فال ہے۔لیکن مطالعہ برائے مطالعہ ہونا چاہئے۔میں دونوں حضرات سے مخاطب ہوں۔
’’۱۹۸۰ء کے بعد ادبی افق پر نمایاں ہونے والی نسل‘‘(صفحہ ۳۹) لکھ کر جہاں کئی شاگرد اور استاد کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا گیا ہے ۔ع ایک ہی صف کھڑے ہوگئے شاگرد استاد‘ وہیں کئی غیر ضروری نام بھی راہ پاگئے ہیں۔ 

Post a Comment

0 Comments