قرطاس پر لکھی ہوئی میری جو غزل ہے
کہتے ہیں اسے لوگ حسیں تاج محل ہے
اس دور میں اک دوسرے پہ برتری پانے
جاری ابھی یہ سلسلۂ جنگ و جدل ہے
سمجھوتا ہوبھی سکتا ہے مل جل کے جو بیٹھیں
کیوں تیغ ہم اٹھائیں اگر ایسا بھی حل ہے
حق بات کہی میں نے سرِ بزم تو جناب
غصے میں نظر آتے ہیں‘ پیشانی پہ بل ہے
جو درسِ حیات ہم کو سعیدؔ ان سے ملا ہے
جن کا نہ کوئی ثانی یہاں کوئی بدل ہے
سعید رحمانی sayeed rahmani,
0 Comments