نام کتاب۔مطلع نور (مجموعہ نعت و مناقب)

 نام کتاب۔مطلع نور (مجموعہ نعت و مناقب)

شاعر۔ سید محمد نور الحسن نورؔ نوابی عزیزی مبصر ۔سعید ؔرحمانی

حضرت سید محمد نور الحسن نورؔ نوابی عزیزی ایک علمی اور روحانی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ بقول سید شاکر القادری چشتی نظامی’’ آپ کے خانوادے میں قادری‘ سہروردی‘ نقش بندی اور چاروں نسبتیں موجود ہیں تا ہم ان کے مزاج میں چشتیائی ذوق و شوق کا 
غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت گوئی میں نہ صرف موضوعاتِ سیرت کی بہتات ہے بلکہ فنی اور جمالیاتی رعنائی بھی قاری کا من موہ لیتی ہے‘‘۔
دینی اور روحانی ماحول میں پرورش و پرداخت کے سبب نورؔ صاحب کی اولین ترجیح تقدیسی شاعری ہے جس میں نعت رسولِ مقبول کو اولیت حاصل ہے۔ چنانچہ نعت نگاری سے انھیں گہرا شغف ہے ۔جس کا اظہار زیر نظر مجموعہ میں جابجا انھوں نے کیا ہے۔ مثالاً یہ دو اشعار ملاحظہ ہوں :
میری بلا سنوارے عروسِ غزل کی زلف۔مجھ کو تو نعت باعثِ صد افتخار ہے
صرف لکھنا ہے اسے وصفِ رسولِ ہاشمی۔اب قلم سے نورؔ کا یہ عہد و پیماں ہو گیا
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتادوں کہ حضرت نورؔ نے قلندرانہ طبیعت پائی ہے اور صلہ و ستائش و نام و نمود کی تمنا کئے بغیر ادب کی خاموش خدمت کو اپنا وطیرہ بنایا ہے۔حمد‘نعت و مناقب کا ایک بڑا ذخیرہ ہو جانے کے بعد بھی مجموعے کی اشاعت سے انھیں دلچسپی نہ تھی۔ مگر یہ حضرت یاور وارثی صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ مسلسل اصرار پر حضرت نورؔ نے مجموعوں کی اشاعت کی اجازت بخشی۔اس طرح یکے بعد دیگر ان کے تین مجموعے منطرِ عام پر آئے ۔یہ ان کا تیسرا مجموعہ ہے جب کہ اس کے قبل و سلّموا تسلیما اور قلزم نور شائع ہو کر اہل ادب سے خراج حاصل کرچکے ہیں۔
اس کی ابتدا حمد و نعت سے ہوئی ہے۔پھر ۳۳؍ نعوتِ پاک‘ ۱۹ ؍ مناقب اور آخر میں برکاتِ رمضان و دعائے باراں کے عنوان سے دو منظومات ہیں۔
حمد ہو یا نعت و منقبت ان سبھی اصناف میں ایک نوع کی تازگی و شگفتگی  کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کی شاعری میں شعری جمال‘ فنی کمال‘ سلاستِ زبان و بیان‘ دلکش تراکیب اور نادر ‘تشبیہات و استعارات ا س با ت کے شاہد ہیں کہ آپ کو نہ صرف زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے بلکہ شعری لوازمات کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کے تقاضوں کی پاسداری کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعتوں میں جہاں وجدانی و سرشارانہ کیفیت پائی جاتی ہے وہیں انھوں نے الوہیت و رسالت کی حد فاصل کا خیال بھی رکھا ہے۔
چونکہ حضرت دینی معلومات‘قرآنی علم اور شریعت پر گہری نظر رکھتے ہیں اس لئے نعت کہتے وقت قدم کہیں بھی لڑ کھڑاتے نہیں ہیں جب کہ بہت سے شعرا اس میدان میں اکثرلڑ کھڑا جاتے ہیں ۔آپ کی نعتوں میں رسول مقبول ﷺ سے گہری محبت و عقیدت ‘دیدارِ مدینہ کی تڑپ‘ نبیؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کی تمنا اور ان کی یادوں کو حرز جاں بنانے کا والہانہ اظہار ایک کامیاب نعت گو ہونے پر دال ہے۔ خصوصاً ایسے اشعار جن میں نادر تشبیہات و استعارات کا بر ملا استعمال ہوا ہے ۔ان میں گہرائی و گیرائی بھی ہے اور شاعرانہ بصیرت کے آئینہ دار بھی ہیں اس ضمن میں یہ اشعار پیش ہیں:
ابلتے ہیں معارف کے سمندر ان کے لفظوں سے۔کلامِ مصطفیٰ کا نام ہے کنز المعانی میں
طاقِ انفاس پہ روشن ہیں درودوں کے چراغ۔للہ الحمد کا سامان لحد رکھتے ہیں
نیر برج رسالت کی نظر جس پر پڑی ۔آسمانِ رشد کا وہ ماہِ تاباں ہو گیا
اے بہارو مرے گلزار تمنا میں کوئی ۔پھول مدحت کی کھلاؤ تو کوئی بات بنے
دیدار مدینہ کے لئے ان کی تڑپ کی کچھ جھلکیاں دیکھیں: 
مجھ کو بھی بلا لیجیے سرکار مدینے میں۔دیدار سے ہوجاؤں سرشار مدینے میں
وہاں سے آنے والوں کی زباں پر ہے یہی چرچا
مدینہ جس کو کہتے ہیں وہ گہوارہ ہے رحمت کا
ان نعتوں کا کینوس بے حد وسیع ہے جس میں سیرتِ پاک کے مختلف پہلوؤں کی بکثرت عکاسی ہوئی ہے مگر اس مختصر سے تبصرے میں ان سب کا احاطہ ممکن نہیں۔
آخر میں اتنا کہوں گا کہ حضرت نور ؔ نے مدحِ رسول صلعم کے ذریعہ جہاں نعتیہ سرمائے میں اضافہ کیا ہے وہیں اپنی فلاحِ آخرت کا اندوختہ بھی کرلیا ہے۔آپ کی منقبتی شاعری کا پلہ بھی کسی طرح کم نہیں۔اس میں سلاست وسادگی بھی ہے اور شگفتگی وشیفتگی بھی اور ساتھ ہی آپ نے ان مناقب میں شہدائے کربلا اور بزرگانِ دین کو عمدہ خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔یہ مجموعہ بیک وقت اردو اور دیوناگری رسم الخط میں شایع ہوا ہے ۔اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ عاشقانِ رسولؐ کا ایک بڑا حلقہ اس سے مستفید ہوگا۔آخر میں حضرت نورؔ کے اس شعر پر اجازت چاہوں گا:
نور کہتا ہوں اس لیے نعتیں۔میری بخشش کا یہ ذریعہ ہیں 
مجموعے کی قیمت ہے ۲۵۰؍روپے اور ملنے کا پتہ:آستانۂ عالیہ نوابیہ۔قاضی پور شریف۔ضلع فتح پور(ہسوہ)‘یو پی 

Post a Comment

0 Comments